سورة البقرة - آیت 106

مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم جب کوئی آیت منسوخ (١٦٠) کردیتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں (یا اسے بغیر تبدیل کیے باقی رہنے دیتے ہیں) تو اس سے اچھی یا اسی جیسی دوسری آیت لے آتے ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

(نسخ) کے لغوی معنی نقل کرنا ہیں۔ نسخ کی شرعی حقیقت یہ ہے کہ مکلفین کو کسی ایک شرعی حکم سے کسی دوسرے شرعی حکم کی طرف منتقل کرنا یا اس شرعی حکم کو یکسر ساقط قرار دے دینا۔ یہودی نسخ کا انکار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نسخ جائز نہیں، حالانکہ نسخ ان کے ہاں تورات میں بھی موجود ہے، ان کا نسخ کو نہ ماننا کفر اور محض خواہش نفس کی پیروی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے نسخ میں پنہاں اپنی حکمت سے آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا : ﴿ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا﴾ ” جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا اس کو بھلاتے ہیں“ یعنی اپنے بندوں سے فراموش کرا دیتے ہیں اور اس آیت کو ان کے دلوں سے زائل کردیتے ہیں ﴿نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ ﴾” تولاتے ہیں اس سے بہتر“ یعنی ایسی آیت اس کی جگہ لے آتے ہیں جو تمہارے لیے زیادہ نفع مند ہوتی ہے ﴿ اَوْ مِثْلِہَا ۭ﴾ ” یا اس جیسی کوئی اور آیت۔ “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارے لیے نسخ (یعنی آیت ناسخہ) کی مصلحت پہلی آیت (یعنی آیت منسوخہ) کی مصلحت سے کسی طرح بھی کم نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل، خاص طور پر اس امت پر بہت زیادہ ہے جس پر اس کے دین کو اللہ نے بے حد آسان بنا دیا ہے۔