وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
اور آپ ان سے اس بستی (98) کا حال پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب اس بستی کے رہنے والے ہفتہ کے دن کے بارے میں اللہ کے حدود سے تجاوز کرتے تھے، جب مچھلیاں ہفتہ کے دن اپنا سر نکالے ان کے پاس آجاتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہیں ہوتا تو مچھلیاں ان کے پاس نہیں آتی تھیں، ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں آزمائشوں میں ڈالیں
﴿وَاسْأَلْهُمْ ﴾” ان (بنی اسرائیل) سے پوچھئے“ ﴿عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ﴾ ” اس بستی کا حال جو دریا کے کنارے تھی“ یعنی جب انہوں نے ظلم و تعدی سے کام لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اس حال میں کہ بستی سمندر کے کنارے پر تھی۔ ﴿ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ﴾ ” جب وہ حد سے بڑھنے لگے ہفتے کے حکم میں“ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ ہفتے کی تعظیم اور احرام کریں، ہفتے کے روز شکار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا۔ ﴿إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا ﴾ ” جب آتیں ان کے پاس مچھلیاں ہفتے کے دن، پانی کے اوپر“ یعنی مچھلیاں سطح سمندر پر بہت کثیر تعداد میں تیرتی ہوئی آتیں۔ ﴿وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ﴾ ” اور جب سبت کا دن نہ ہوتا“ یعنی سبت کا دن گزر جاتا ﴿لَا تَأْتِيهِمْ﴾ ” ان کے پاس نہ آتیں۔“ یعنی مچھلیاں سمندر میں واپس چلی جاتیں اور ان میں سے کوئی مچھلی دکھائی نہ دیتی۔ ﴿كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴾” اسی طرح ہم نے ان کو آزمایا، اس لئے کہ وہ نافرمان تھے“ یعنی یہ ان کا فسق تھا جو اس بات کا موجب بنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو آزمائے اور ان کا امتحان ہو۔ ورنہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردیتا اور ان کو مصیبت اور شر میں مبتلا نہ کرتا۔ پس انہوں نے شکار کے لئے حیلہ کیا، وہ سمندر کے کنارے گڑھے کھود لیتے اور ان گڑھوں میں جال لگا دیتے۔ جب سبت کا دن آتا تو مچھلیاں ان گڑھوں میں آ کر جال میں پھنس جاتیں اور وہ اس روز ان مچھلیوں کو نہ پکڑتے۔ جب اتوار کا دن آتا تو وہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے۔ یہ حیلہ ان میں بہت زیادہ ہوگیا اور اس بارے میں بنی اسرائیل تین گروہوں میں منقسم ہوگئے۔ (١) ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے علی الاعلان سبت کے قانون کو توڑنے کی جسارت کی۔ (٢) دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے علانیہ ان کو ایسا کرنے سے روکا اور ان پر نکیر کی۔