سورة البقرة - آیت 104

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو، تم لوگ (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رعایت کرنے کی درخواست کرتے وقت) ” راعنا“ (١٥٩) نہ کہو، اور ” انظرنا“ کہو، اور غور سے سنو، اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

مسلمان جب دینی امور سیکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے تو عرض کرتے ﴿رَاعِنَا﴾ یعنی ہمارے حال کی رعایت کیجئے۔ ان کے نزدیک اس لفظ کا صحیح معنی مقصود تھا۔ مگر یہودی اس سے فاسد معنی مراد لیتے تھے، لہٰذا وہ مسلمانوں کے اس لفظ کے استعمال کو غنیمت جانتے ہوئے فاسد معنی کے ارادے سے اس لفظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اس لفظ کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرنے سے روک دیا۔ تاکہ (گستاخی کا) یہ دروازہ بند ہوجائے۔ اس آیت کریمہ میں کسی جائز کام سے روکنے کی دلیل ہے جبکہ یہ جائز کام کسی حرام کام کے لیے وسیلہ ہو، نیز اس میں ادب کا اور ایسے الفاظ کے استعمال کا بیان ہے جو اچھے ہوں، جن میں بے ہودگی نہ ہو۔ نیز قبیح الفاظ کے ترک کرنے کی تاکید ہے، یا جن میں کسی قسم کی تشویش اور کسی نامناسب امر کا احتمال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں صرف اچھے معنی کا احتمال ہو۔ فرمایا : ﴿وَقُوْلُوا انْظُرْنَا ” اور اُنْظُرْنَا کہو“ یہ لفظ کافی ہے اور بغیر کسی خدشے کے اس سے اصل مقصد حاصل ہوجاتا ہے ﴿ وَاسْمَعُوْا ۭ ﴾’’اور سنو“ یہاں مسموع کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس کی عمومیت میں ہر وہ چیز شامل ہو جس کے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے مفہوم میں سماع قرآن اور سماع سنت شامل ہیں جو لفظی، معنوی اور قبولیت کے اعتبار سے سراسر حکمت ہے۔ اس میں ادب اور اطاعت کی تعلیم ہے۔