الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ان کے لیے جو ہمارے رسول نبی امی (90) کی اتباع کرتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث اور گندی چیزوں کو حرام کرتے ہیں، اور ان بارہائے گراں اور بندشوں کو ان سے ہٹاتے ہیں جن میں وہ پہلے سے جکڑے ہوئے تھے، پس جو لوگ ان پر ایمان (91) لائے ہیں، اور جنہوں نے ان کے مقام کو پہچانا ہے، اور ان کی مدد کی ہے، اور اس نور کی پیروی کی ہے جو ان پر نازل ہوا، وہی فلاح پانے والے ہیں
﴿ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ﴾” وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی امی ہے“ یہاں تمام انبیائے کرام کے ذکر سے احتراز کیا ہے، کیونکہ یہاں صرف حضرت محمد مصطفی بن عبدللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وسلم مقصود ہیں۔ یہ آیت بنی اسرائیل کے حالات کے سیاق میں ہے، ان کے لئے ایمان میں داخل ہونے کی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت مطلق جو اس نے اپنے بندوں کے لئے لکھ رکھی ہے صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اس کی اتباع کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ﴿ الْأُمِّيِّ ﴾ کے وصف سے موصوف فرمایا ہے کیونکہ آپ عربوں میں سے ہیں اور عرب ایک ان پڑھ امت تھے جو لکھ سکتے تھے نہ پڑھ سکتے تھے اور قرآن مجید سے پہلے ان پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ ﴿الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ﴾” وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات) کو تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں“ اور ان میں سب سے بڑی اور جلیل ترین صفت وہ ہے جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں اور جس چیز سے آپ منع کرتے ہیں۔ ﴿يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ﴾ ” وہ معروف کا حکم دیتے ہیں۔“ اور (مَعروف) سے مراد ” ہر وہ کام ہے جس کی اچھائی، بھلائی اور اس کا فائدہ مند ہونا معروف ہو۔“ ﴿وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔“ (منکر) سے مراد ” ہر وہ برا کام ہے جس کی برائی اور قباحت کو عقل اور فطرت سلیم تسلیم کرتی ہو“ پس وہ نماز، زکوٰۃ، روزے حج، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ نیک سلوک، ہمسایوں اور غلاموں کے ساتھ نیکی، تمام مخلوق کو فائدہ پہنچانے، سچائی، پاکبازی، نیکی، خیر خواہی اور دیگر اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قتل ناحق، زنا، شراب اور نشہ دار مشروبات پینے، تمام مخلوق پر ظلم کرنے، جھوٹ، فسق و فجور اور دیگر برائیوں سے روکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی سب سے بڑی دلیل وہ کام ہیں جن کا آپ حکم دیتے ہیں، جن سے آپ روکتے ہیں، جن کو آپ حلال قرار دیتے ہیں اور جن کو آپ حرام قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ ﴾ ” وہ حلال کرتا ہے ان کے لئے سب پاک چیزیں“ یعنی آپ ماکولات، مشروبات اور منکوحات میں سے طیبات اور پاک چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ﴿ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ﴾” اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں۔“ یعنی ماکولات اور مشروبات میں سے ناپاک چیزوں، ناپاک اقوال و افعال اور ناپاک عورتوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾” اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان کے سر پر اور گلے میں تھے اتارتے ہیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ کا لایا ہوا دین نہایت آسان، نرم اور کشادہ ہے۔ اس دنیا میں کوئی بوجھ، کوئی ناروا بندش، کوئی مشقت اور کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ﴿ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ ﴾ ” پس وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے اور جنہوں نے آپ کی توقیر و تعظیم کی“ ﴿وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ﴾” اور آپ کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو آپ کے ساتھ اترا ہے“ نور سے مراد قرآن ہے جس سے شک و شبہات اور جہالت کے تیرہ و تار اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے اور مقالات و نظریات کے اختلاف میں اس کو راہ نما بنایا جاتا ہے ﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” وہی مراد پانے والے ہیں۔“ یہی لوگ ہیں جو دنیا و آخرت کی بھلائی سے ظفر یاب ہوں گے اور یہی لوگ دنیا و آخرت کے شر سے نجات پائیں گے، کیونکہ وہ یہ وہ لوگ ہیں جو فلاح کا سب سے بڑا سبب لے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہوئے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے، انہوں نے آپ کی تعظیم و توقیر کی نہ آپ کی مدد کی اور نہ اس نور کی اتباع کی جو آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔