سورة الاعراف - آیت 146

سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں جلد ہی اپنی آیتوں میں غو و فکر کرنے سے ان لوگوں کے دلوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر (78) کرتے ہیں، اور اگر وہ لوگ ہر ایک نشانی کو دیکھ لیں گے پھر بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے، اور اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھ لیں گے تب بھی اسے اختیار نہیں کریں گے، اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ لیں گے تو اس پر چل پڑیں گے، یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، اور ان کی طرف سے یکسر غافل رہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ﴾ ” میں اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا“ یعنی آفاق اور انفس میں موجود نشانیوں سے عبرت پکڑنے اور کتاب اللہ کی آیات کے فہم سے، میں ان کو روک دوں گا۔ ﴿الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ﴾ ” ان کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق“ یعنی جو بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آتے ہیں، حق کے ساتھ تکبر کا رویہ رکھتے ہیں اور ہر اس شخص کو تکبر سے ملتے ہیں جو ان کے پاس آتا ہے اور جس کا یہ رویہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بہت سی بھلائی سے محروم کردیتا ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھ سکتا ہے نہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔۔۔ بلکہ بسا اوقات اس کے سامنے حقائق بدل جاتے ہیں اور وہ بدی کو نیکی سمجھنے لگ جاتا ہے۔ ﴿وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا﴾ ” اگر وہ دیکھ لیں ساری نشانیاں، ایمان نہ لائیں ان پر“ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے روگردانی کرتے ہیں اور ان پر اعتراضات کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں ﴿وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ﴾ ” اور اگر دیکھیں وہ ہدایت کا راستہ“ یعنی ہدایت اور استقامت کی راہ۔۔۔ اور یہ وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک اور عزت و اکرام کے گھر تک پہنچاتا ہے۔﴿ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا﴾” تو نہ ٹھہرائیں اس کو راہ“ یعنی وہ اس راستے پر گامزن ہوتے ہیں اور نہ اس پر گامزن ہونے کی رغبت رکھتے ہیں۔ ﴿وَإِن يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ﴾ ” اور اگر دیکھیں وہ گمراہی کا راستہ“ یعنی جو اپنے چلنے والے کو بدبختی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔﴿يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ﴾ تو اس کو ٹھہرا لیں راہ“ یعنی اسی راستے پر رواں دواں رہتے ہیں۔ ان کے اس انحراف کا سبب یہ ہے﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ ﴾ ” یہ اس لئے کہ انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور ان سے بے خبر رہے“ پس ان کا آیات الٰہی کو ٹھکرا دینا اور ان کے بارے میں غفلت اور حقارت کا رویہ اختیار کرنا یہی ان کو گمراہی کے راستوں پر لے جانے اور رشد و ہدایت کی راہ سے ہٹانے کے موجب بنے ہیں۔