وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل (71) کو سمندر عبور کرا دیا، تو ان کا گذر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو اپنے بتوں کی عبادت کر رہے تھے، انہوں نے کہا، اے موسیٰ جس طرح ان کے کچھ معبود ہیں، آپ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئے، موسیٰ نے کہا کہ واقعی تم لوگ بالکل نادان ہو
﴿ وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ﴾” اور پار اتار دیا ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون اور اس کی قوم سے نجات دے کر سمندر سے پار کیا اور فرعون اور اس کی قوم کو بنی اسرائیل کے سامنے ہلاک کر ڈالا۔﴿ فَأَتَوْا ﴾ ” پس وہ پہنچے“ یعنی ان کا گزر ہوا ﴿عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ ﴾ ” ایک قوم پر جو اپنے بتوں کے پوجنے میں لگی ہوئی تھی۔“ یعنی وہ ان بتوں کے پاس ٹھہرتے تھے، ان سے برکت حاصل کرتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ﴿ قَالُوا﴾ بنی اسرائیل نے اپنی جہالت اور بے وقوفی کی بنا پر، اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزات دکھائے تھے، اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام سے کہا ﴿ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ﴾ ” اے موسیٰ! جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دو۔“ یعنی تو ہمارے لئے بھی جائز کر دے کہ ہم بھی بتوں کو معبود بنائیں جیسے ان لوگوں نے بتوں کو معبود بنایا ہوا ہے۔ ﴿قَالَ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا ﴿إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾” تم لوگ تو جہالت کا ارتکاب کرتے ہو“ اس شخص کی جہالت سے بڑھ کر کون سی جہالت ہوسکتی ہے جو اپنے رب اور خالق سے جاہل ہے اور چاہتا ہے کہ وہ غیر اللہ کو اس کا ہمسر بنائے، جو کسی نفع نقصان کا مالک نہیں اور نہ زندگی اور موت اور دوبارہ اٹھایا جانا اس کے اختیار میں ہے؟ بنا بریں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :