فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ
پھر جب ہم نے عذاب کو ان سے ایک وقت مقر تک کے لیے ٹال دیا جہاں تک انہیں پہنچنا تھا، تو وہ وعدہ خلافی کر بیٹھھے
﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ﴾ ” پھر جب ہم ایک مدت کے لئے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور کردیتے۔“ یعنی جب ایک مدت تک ان سے عذاب دور کردیا جاتا جس مدت تک اللہ تعالیٰ نے ان کی بقا مقدر کی تھی۔ یہ عذاب ہمیشہ کے لئے ان سے دور نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک مقرر وقت تک کے لئے اس عذاب کو ہٹایا جاتا تھا۔ ﴿ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ﴾ ” تو اسی وقت عہد توڑ ڈالتے“ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزاد کردینے کے عہد کو، جو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کیا تھا، توڑ دیتے۔ وہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے نہ انہوں نے بنی اسرائیل کو آزاد کیا، بلکہ وہ اپنے کفر پر جمے رہے اور اسی میں سرگرداں رہے اور بنی اسرائیل کو تعذیب دینا انہوں نے اپنی عادت بنا لیا تھا۔