أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
جو لوگ ملک والوں کے دنیا سے رخصت (54) ہونے کے بعد اس کے وارث بن جاتے ہیں، کیا یہ بات ان کی اس طرف رہنمائی نہیں کرتی کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑ لیتے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے، پھر وہ خیر کی کوئی بات سنتے ہی نہیں
اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ قوموں کی ہلاکت کے بعد باقی رہ جانے والی قوموں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ﴾ ” کیا ان لوگوں کو جو اہل زمین کے (مر جانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں۔‘‘ کیا ان امتوں پر واضح نہیں ہوا جو ان قوموں کے اپنے گناہوں کے سبب سے ہلاکت کے بعد، جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں، زمین میں وارث بنی ہیں؟ پھر انہوں نے بھی ان ہلاک ہونے والے لوگوں جیسے اعمال کا ارتکاب شروع کردیا۔ کیا انہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں بھی ان کے گناہوں کے سبب سے پکڑ لے؟ کیونکہ اولین و آخرین کے بارے میں یہی سنت الٰہی ہے۔ ﴿وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ﴾ ” اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیں، پس وہ نہ سنیں۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ انہیں تنبیہ کرے تو وہ متنبہ نہ ہوں، انہیں نصیحت کرے، مگر وہ نصیحت نہ پکڑیں اور اللہ تعالیٰ آیات اور عبرتوں کے ذریعے سے ان کی راہ نمائی کرے، مگر وہ راہنمائی حاصل نہ کریں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے پس ان کے دلوں پر میل کچیل جم جاتا ہے اور وہ زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔۔۔ ان کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے حق ان میں داخل نہیں ہوسکتا، بھلائی ان تک پہنچ نہیں سکتی۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں سن سکتے جو انہیں فائدہ دے۔ وہ تو صرف وہی بات سن سکتے ہیں جو ان کے خلاف حجت بنے گی۔