أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ
کیا وہ اللہ کی چال سے اپنے آپ کو امن میں سمجھ رہے ہیں، اللہ کی چال سے تو خسارہ اٹھانے والے ہی اپنے آپ کو امن میں سمجھتے ہیں
﴿أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّـهِ﴾” کیا وہ بے خوف ہوگئے ہیں اللہ کے داؤ سے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ڈھیل دے کر فریب میں مبتلا کر رہا ہے جسے وہ نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی چال بہت سخت ہے۔ ﴿ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ﴾ ” پس اللہ کے داؤ سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو نقصان اٹھانے والے ہیں“ کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ سمجھتا ہے وہ اعمال کی جز اور سزا کی تصدیق کرتا ہے، نہ وہ انبیاء و مرسلین پر حقیقی ایمان رکھتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ بندے کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جتنا کچھ ایمان رکھتا ہے اس کے ضیاع سے بے خوف ہوجائے، وہ ہمیشہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے ایسی آزمائش سے دوچار نہ کر دے کہ جس سے اس کا سرمایہ ایمان سلب ہوجائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہے (( يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلْبِي عَلَى دِينِكَ)) ” اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ“[جامع الترمذی، کتاب الدعوات، باب دعاء: یامقلب القلوب۔۔۔، حدیث :3522] اور فتنوں کے وقوع کے وقت وہ ہر اس سبب کے حصول کے لئے کوشاں رہے جو اس کو شر سے نجات دے، کیونکہ بندہ۔۔۔ خواہ اس کا حال کیسا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ اس کی سلامتی یقینی نہیں۔