قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ
ہم اللہ پر افترا پردازی کریں گے، اگر تمہارے دین میں لوٹ جائیں، مگر یہ کہ اللہ چاہے جو ہمارا رب ہے، ہمارا رب اپنے علم کے ذریعہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، ہم نے تو صرف اللہ پر بھروسہ کیا ہے، اے ہمارے رب ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کردے، اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
﴿ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّـهُ مِنْهَا ﴾ ” اگر ہم اس کے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے، تمہارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بے شک ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھ دیا۔“ یعنی تم گواہ رہو کہ اگر ہم تمہاری ملت اور دین میں واپس لوٹ آئے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے دی ہے اور اس کے شر سے ہمیں بچا لیا ہے۔ تو ہم جھوٹے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی افتراء پرداز نہیں جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ ایک، یکتا اور بے نیاز ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اقتدار میں کوئی شریک۔﴿ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا ﴾ ” اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں۔“ یعنی ہم جیسے لوگوں کے لئے ممکن نہیں کہ ہم اس دین میں پھر لوٹ آئیں کیونکہ یہ بالکل محال ہے۔ جناب شعیب نے متعدد وجوہ سے کفار کو اس بات سے مایوس کردیا کہ وہ ان کی موافقت کریں گے۔ (١) حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے اصحاب ان کے دین کو ناپسند کرتے تھے اور اس سے سخت بغض رکھتے تھے کیونکہ ان کا دین شرک پر مبنی تھا۔ (٢) شعیب نے ان کے دین کو جھوٹ قرار دیا تھا اور ان کو اس بات پر گواہ بنایا تھا کہ اگر انہوں نے اور ان کے اصحاب نے کفار کے دین کی اتباع کی، تو وہ جھوٹے ہیں۔ (٣) انہوں نے علی الاعلان اعتراف کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے دین سے بچا کر ان پر احسان کیا ہے۔ (٤) ان کی استقامت پر مبنی حالت پر غور کریں، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی جو تعظیم، اس کی عبودیت کا جو اعتراف، نیز اس بات کا اعتراف کہ وہی الٰہ واحد ہے صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کا اعلان کہ مشرکین کے گھڑے ہوئے معبود سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑا فریب ہیں۔۔۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو ہدایت سے نوازنے کے بعد وہ ان کے دین میں واپس لوٹیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عقل سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کو پہچانتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تمام مخلوقات میں نافذ اس کے ارادے میں غور کیا جائے، جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے ممکن نہیں خواہ پے در پے اسباب مہیا ہوں اور قوتیں باہم موافق ہوں۔۔۔ تو وہ اپنے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ عنقریب فلاں فعل سر انجام دیں گے یا اس کو چھوڑ دیں گے۔ بنا بریں شعیب علیہ السلام نے استثناء کا اسلوب استعمال کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّنَا﴾ ’’اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں، ہاں اللہ جو ہمارا رب ہے وہ چاہے تو۔“ یعنی ہمارے لئے یا کسی اور کے لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے، جو اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے، باہر نکلنا ممکن نہیں ﴿ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ﴾” گھیرے ہوئے ہے ہمارا پروردگار سب چیزوں کو اپنے علم میں“ پس وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لئے کیا درست ہے اور کس چیز کے ذریعے سے وہ بندوں کی تدبیر کرے ﴿عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا ﴾” ہمارا اللہ ہی پر بھروسا ہے۔“ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا اور جہنم کے تمام راستوں سے ہمیں بچائے گا، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے اور وہ اس کے دین اور دنیا کے معاملے کو آسان کردیتا ہے۔ ﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ﴾ ” اے ہمارے رب فیصلہ کر ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ“ یعنی ظالم اور حق کے خلاف عناد رکھنے والے کے مقابلے میں مظلوم اور صاحب حق کی مدد فرما۔ ﴿وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ﴾ ” اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے“ اپنے بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی دو اقسام ہیں : (١) اللہ تعالیٰ باطل میں سے حق کو، گمراہی میں سے ہدایت کو بیان کر کے نیز یہ واضح کر کے کہ کون صراط مستقیم پر گامزن ہے اور کون اس سے منحرف ہے۔۔۔ فیصلہ کرتا ہے یہ اس کا علمی فیصلہ ہے۔ (٢) ظالموں کو سزا دینے اور صالحین کو نجات اور اکرام عطا کرنے کے لئے جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس کا جزائی فیصلہ ہے۔ پس اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ حق اور انصاف کے ساتھ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ انہیں ایسی آیات و علامات دکھا دے جو فریقین کے مابین فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں۔