وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
اور تم لوگ ہر راستہ پر مت بیٹھا کرو، تاکہ لوگوں کو (شعیب کی طرف جانے سے) ڈراؤ دھمکاؤ، اور جو اللہ پر ایمان لائے ہیں، انہیں اس کی راہ سے روکو، اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہو، اور یاد کرو، جب تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہاری تعداد زیادہ کردی، اور دیکھ لو کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے
﴿وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ﴾ ” اور ہر راستے پر نہ بیٹھا کرو۔“ یعنی لوگوں کے لئے راستوں پر گھات لگا کر نہ بیٹھو جہاں کثرت سے لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور تم ان راستوں سے لوگوں کو ڈراتے ہو۔ ﴿تُوعِدُونَ﴾ ” ڈراتے ہو۔“ اور ان پر چلنے سے ان کو دھمکاتے ہو۔ ﴿وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو۔“ یعنی جو کوئی راہ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہو۔ ﴿وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا﴾” اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔“ یعنی تم اللہ کے راستے میں کجی چاہتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو۔ تم پر اور دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے کی تعظیم اور احترام کرو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کردیا ہے تاکہ وہ اس کی رضا کی منزل، اور عزت والے گھر تک پہنچنے کے لئے اس پر گامزن ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اپنے بندوں کو اپنی عظیم رحمت سے نوازے۔ تمہیں تو چاہئے کہ تم اس کی مدد کرو، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو اور اس کا دفاع کرو۔ نہ اس کے برعکس کہ تم اس راستے کے راہزن بن کر اس کو مسدود کر دو اور لوگوں کو اس راستے سے روکو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت اور سب سے درست اور معتدل راستے کو ٹیڑھا کرنا ہے اور تم ان لوگوں کو برا بھلا کہتے ہو جو اس راستے پر گامزن ہیں۔ ﴿ وَاذْكُرُوا﴾ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو ﴿إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ﴾ ” جب کہ تم تھوڑے تھے، پس اس نے تم کو زیادہ کردیا“ یعنی تمہیں بیویاں، نسل اور صحت عطا کر کے تمہاری تعداد کو بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی وبا اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جو تعداد کو کم کردیتی ہے نہ تم پر کوئی ایسا دشمن مسلط کیا جو تمہیں ہلاک کردیتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں تتر بتر کیا بلکہ یہ اللہ کا تم پر انعام ہے کہ اس نے تمہیں مجتمع رکھا، تمہیں بے حساب رزق اور کثرت نسل سے نوازا۔﴿وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ﴾” اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا“ کیونکہ تم ان کی جمعیت میں تشتت اور افتراق اور ان کے گھروں میں وحشت اور ہلاکت کے مناظر کے سوا کچھ نہیں پاؤ گے۔ انہوں نے اپنے بارے میں اپنے پیچھے کوئی اچھے تذکرے نہیں چھوڑے، بلکہ اس کے برعکس اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کر رہی ہے اور قیامت کے روز بھی ان کو رسوائی اور نصیحت کا سامنا کرنا ہوگا۔