فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ
تو صالح نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا، اے میری قوم ! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے، اور تمہاری خیر خواہی کی ہے، لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے
﴿فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ﴾ ” پس صالح ان سے منہ پھیر کر چل دیئے“ جب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل فرمایا تو صالح علیہ السلام ان کو چھوڑ کر چل دیئے ﴿وَقَالَ﴾ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان کو ہلاک کردینے کے بعد ان سے مخاطب ہو کر ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ﴾ ” اے میری قوم ! میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی۔“ یعنی میں ان تمام احکامات کو تم تک پہنچا چکا ہوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ میں تمہاری ہدایت کا بہت متمنی تھا اور میں نے تمہیں صراط مستقیم اور دین قیم پر گامزن کرنے کی بہت کوشش کی۔﴿وَلَـٰكِن لَّا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ﴾ ” لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے“ بلکہ تم نے خیر خواہوں کی بات کو ٹھکرا دیا اور ہر دھتکارے ہوئے شیطان کی اطاعت کی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے مفسرین ذکر کرتے ہیں کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے اس وقت برآمد ہوئی تھی جب کفار نے صالح علیہ السلام سے معجزے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پتھر نے اونٹنی کو اسی طرح جنم دیا تھا جس طرح کوئی حاملہ اپنے بچے کو جنم دیتی ہے۔ ان کے دیکھتے دیکھتے یہ اونٹنی پتھر میں سے برآمد ہوئی۔ جب انہوں نے اونٹنی کو ہلاک کیا تو اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ یہ بچہ تین بار بلبلایا، اس کے سامنے پہاڑ پھٹ گیا اور اونٹنی کا یہ بچہ پہاڑ کے اس شگاف میں داخل ہوگیا۔ نیز ان مفسرین کے مطابق صالح علیہ السلام نے کفار سے فرمایا تھا کہ تم پر عذاب کے نازل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ ان مذکورہ تین دنوں میں پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ پڑجائیں گے اور جیسے حضرت صالح علیہ السلام نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ ان مفسرین کا بیان کردہ یہ قصہ اسرائیلیات میں شمار ہوتا ہے جن کو اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں۔ قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز وارد نہیں ہوئی جو کسی بھی پہلو سے اس کی صداقت پر دلالت کرتی ہو، بلکہ اس کے برعکس اگر یہ قصہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ یہ واقعہ بہت تعجب انگیز، عبرت انگیز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہوتا اللہ تعالیٰ کبھی اس کو مہمل نہ چھوڑتا اور اپنی کتاب میں اس کا ذکر کئے بغیر نہ رہتا اور یوں یہ قصہ ناقابل اعتماد ذرائع سے نقل نہ ہوتا۔ بلکہ قرآن کریم اس قصہ کے بعض مشمولات کی تکذیب کرتا ہے۔ صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا : ﴿ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ﴾ (ھود :11؍65) ” اپنے گھروں میں تین دن اور فائدہ حاصل کرلو۔“ یعنی اس بہت ہی تھوڑے سے وقت میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ کرلو، کیونکہ اس کے بعد تمہارے حصے میں کوئی لذت نہ ہوگی اور ان لوگوں کے لئے کون سی لذت اور نعمتوں سے فائدہ اٹھانا ہوسکتا ہے، جن کو ان کے نبی نے عذاب کے وقوع کی وعید سنائی ہو اور اس عذاب کے مقدمات کا بھی ذکر کردیا ہو اور یہ عذاب روز بروز بتدریج اسی طریقے سے واضح ہو رہا ہو، جو سب کو شامل ہو کیونکہ ان کے چہروں کا سرخ، زرد اور پھر سیاہ ہوجانا اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے؟ کیا یہ قصہ قرآن کے بیان کردہ واقعات کے خلاف اور متضاد نہیں ؟ جو کچھ قرآن بیان کرتا ہے وہی کافی ہے اور وہی راہ ہدایت ہے۔ ہاں ! جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے اور وہ کتاب اللہ کے خلاف نہ ہو تو سر آنکھوں پر اور یہی وہ چیز ہے جس کی اتباع کا قرآن نے حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾(الحشر:59؍7) ” جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے اس سے رک جاؤ۔ “ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اسرائیلی روایات سے کتاب اللہ کی تفسیر کرنا جائز نہیں، اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ایسے امور کو، جن کا جھوٹ ہونا قطعی نہ ہو، بنی اسرائیل سے روایت کرناجائز ہے۔ تب بھی ان کے ذریعے سے کتاب اللہ کی تفسیر کرناجائز نہیں۔ کیونکہ کتاب اللہ کے معانی یقینی ہیں اور ان اسرائیلیات کی تصدیق کی جاسکتی ہے نہ تکذیب۔ پس دونوں میں اتفاق ناممکن ہے۔