قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ۖ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
ہود نے کہا، تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب آ کر رہے گا، کیا تم لوگ مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے اپنی طرف سے رکھ لیا ہے، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری ہے، تو پھر انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں
﴿قَالَ﴾ہود علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿ قَدْ وَقَعَ عَلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ ﴾” تم پر واقع ہوچکا ہے تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غصہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا واقع ہونا اٹل ہے کیونکہ اس کے اسباب وجود میں آگئے اور ان کی ہلاکت کا وقت قریب آگیا ﴿ أَتُجَادِلُونَنِي فِي أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم﴾ ” کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خود رکھ لئے ہیں۔“ یعنی تم ایسے امور میں میرے ساتھ کیوں کر جھگڑتے ہو جن کی کوئی حقیقت نہیں اور ان بتوں کے بارے میں میرے ساتھ کیسے بحث کرتے ہو جن کو تم نے معبودوں کے نام سے موسوم کر رکھا ہے حالانکہ ان کے اندر الوہیت کی ذرہ بھر بھی صفت نہیں ﴿مَّا نَزَّلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ﴾ ” اللہ نے ان پر کوئی دلیل نہیں اتاری“ کیونکہ اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی تائید میں ضرور کوئی دلیل نازل فرماتا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل کا عدم نزول، ان کے باطل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ کوئی ایسا مطلوب و مقصود نہیں۔۔۔ خاص طور پر بڑے بڑے امور۔۔۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دلائل و براہین کو بیان نہ فرما دیا ہو اور ایسی حجت نازل نہ فرما دی ہو جس کے ہوتے مطلوب و مقصود نہیں رہ سکتا۔ ﴿فَانتَظِرُوا ﴾ ” پس تم انتظار کرو۔“ یعنی پس اس عذاب کا انتظار کرو جو تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے جس کا میں نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا ہے ﴿ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ﴾” میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں“ اور انتظار کی دونوں اقسام میں فرق ہے۔ ایک انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو عذاب کے واقع ہونے سے ڈرتا ہے دوسرا انتظار اس شخص کا انتظار ہے جو اللہ تعالیٰ کی مدد اور ثواب کا امیدوار ہے۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔