سورة الاعراف - آیت 69

أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تمہیں اس بات سے تعجب ہے کہ تمہارے رب کی وحی تم ہی میں سے ایک آدمی پر نازل ہوئی ہے، تاکہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم نوح کے بعد اپنا خلیفہ مقرر کیا، اور دوسروں کے مقابلہ میں تمہیں زیادہ قوت و جسامت عطا کی، پس تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، تاکہ کامیاب ہوجاؤ

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ﴾ ” کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے۔“ یعنی تم ایسے معاملے میں کیوں کر تعجب کرتے ہو جس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اور وہ معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم ہی میں سے ایک شخص کو جس کو تم خوب جانتے ہو، تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، وہ تمہیں ان باتوں کی یاد دہانی کراتا ہے جن میں تمہارے مصالح پنہاں ہیں اور تمہیں ان امور کی ترغیب دیتا ہے جن میں تمہارے لئے فائدہ ہے اور تم اس پر اس طرح تعجب کرتے ہوجیسے منکرین تعجب کرتے ہیں۔ ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ﴾ ’’اور یاد کرو جب کہ تم کو جانشین بنایا قوم نوح کے بعد“ یعنی تم اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرو اور اس کا شکریہ ادا کرو کیونکہ اس نے تمہیں زمین میں اقتدار عطا کیا اور اس نے تمہیں ہلاک ہونے والی قوموں کا جانشین بنایا جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس پاداش میں ہلاک کردیا اور تمہیں باقی رکھا تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تم رسولوں کی تکذیب پر جمے رہنے سے بچو، جیسے وہ جمے رہے ورنہ تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو ان کے ساتھ ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہارے لئے مختص کی اور وہ نعمت یہ ہے ﴿وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ﴾” اس نے زیادہ کردیا تمہارے بدن کا پھیلاو“ یعنی اس نے تمہیں بہت زیادہ قوت، بڑے بڑے مضبوط جسم اور نہایت سخت پکڑ عطا کی۔﴿فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّـهِ ﴾ ” پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں اور اس کے مکرر احسانات کو یاد رکھو ﴿ لَعَلَّكُمْ﴾ ” تاکہ تم“ یعنی اگر تم ان نعمتوں کو شکر گزاری کے ساتھ اور ان کا حق ادا کرتے ہو یاد رکھو گے ﴿تُفْلِحُونَ ﴾ ” کامیاب ہوجاؤ“ یعنی اپنے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے اور اس چیز سے نجات پالو گے جس سے ڈرتے ہو۔ ہود علیہ السلام نے ان کو نصیحت کی، ان کو توحید کا حکم دیا اور ان کے سامنے خود اپنے اوصاف بیان کئے اور فرمایا کہ وہ ان کے لئے نہایت امانت دار خیر خواہ ہیں۔ انہیں اس بات سے ڈرایا کہ کہیں اللہ تعالیٰ ان کا اسی طرح مواخذہ نہ کرے جس طرح اس نے ان سے پہلی قوموں کا مواخذہ کیا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائیں اللہ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا جو وافر رزق کی صورت میں ان پر کیا گیا۔ مگر انہوں نے جناب ہود علیہ السلام کی اطاعت کی نہ ان کی دعوت کو قبول کیا۔