إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
بے شک آپ کا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ (38) دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی (39) ہوگیا، وہ رات کے ذریعہ دن کو ڈھان (40) دیتا ہے، رات تیزی کے ساتھ اس کی طلب میں رہتی ہے، اور اس نے سورج اور چاند اور ستاروں کو پیدا کیا (41)، یہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں، آگاہ رہو کہ وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی کا حکم ہر جگہ نافذ ہے، اللہ رب العالمین کی ذات بہت ہی بابرکت ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ واضح کرتا ہے کہ وہ اکیلا رب معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ﴾” بے شک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو“ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، زمین و آسمان کی وسعت، ان کی عظمت، ان کے محکم ہونے، ان کے مہارت کے ساتھ بنے ہوئے اور ان کی انوکھی تخلیق کے باوصف ﴿ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ ” چھ دن میں“ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ پہلا دن اتوار تھا اور آخری دن جمعہ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق پوری کردی اور ان کے اندر اپنے تمام امور ودیعت کردیئے۔ ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ عرش پر جا ٹھہرا۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ عرش عظیم پر مستوی ہوا اور عرش عظیم تمام آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے، سب پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم پر اس طرح مستوی ہوا جس طرح اس کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی سلطنت کے لائق ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی ہوا، اس کا اقتدار تمام ممالک کو شامل ہے، اس نے اپنے تمام احکام تکوینی اور احکام دینی جاری فرمائے۔ بنابریں فرمایا : ﴿يُغْشِي اللَّيْلَ ﴾ ” اڑھاتا ہے وہ رات کو“ ﴿ النَّهَارَ﴾ ” دن پر“ یعنی اندھیری رات روشن دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور زمین پر اندھیرا چھا جاتا ہے، انسان آرام کرتے ہیں اور مخلوقات اپنے اپنے مسکنوں میں دن بھر کے آنے جانے اور تھکاوٹ سے آرام پاتے ہیں۔ ﴿ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا﴾” کہ وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا“ جب رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ گردش لیل و نہار ہمیشہ جاری رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی بساط لپیٹ دے گا اور بندے اس جہان فانی سے دوسرے جہان میں منتقل ہوجائیں گے۔﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ﴾ ” اور پیدا کئے سورج، چاند اور تارے، تابع دار اپنے (اللہ) کے حکم کے“ یعنی سورج، چاند اور ستارے اس کی تسخیر و تدبیر سے مسخر ہیں، جو اس کے اوصاف کمال کی دلیل ہے۔ پس ان کی تخلیق اور ان کا اتنا بڑا ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ پر اور اس کائنات کا محکم، مضبوط اور منظم ہونا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں میں جو ضروری اور بعض دیگر فوائد اور مصالح رکھے گئے ہیں، وہ اس کے بے کراں علم اور بے پایاں رحمت پر دلیل ہیں۔ نیز اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ﴾”اسی کے لئے ہے پیدا کرنا بھی اور حکم بھی۔“ یعنی وہی تخلیق کا مالک ہے جس سے تمام مخلوقات مخلوق علوی، مخلوق سفلی، ان کے اعیان، اوصاف اور افعال صادر ہوتے ہیں اور امر کا بھی مالک ہے جو شریعت و نبوت کو متضمن ہے۔ پس ” تخلیق“ اس کے احکام کونی و قدری کو اور ” امر“ احکام دینی و شرعی کو متضمن ہے اور احکام جزا کا اجراء دار بقا میں ہوگا ﴿ تَبَارَكَ اللَّـهُ ﴾ یعنی وہ بلند اور عظمت والا ہے اس کی بھلائی اور احسان بہت زیادہ ہے، وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اپنی عظمت اوصاف اور کمال صفات کی بنا پر بہت بابرکت ہے اور مخلوق کو بے پایاں بھلائی اور بے شمار نیکی سے نواز کر دوسروں کو بھی برکت عطا کرتا ہے۔ پس اس کائنات میں جو برکات نظر آتی ہیں وہ اس کی رحمت کے آثار ہیں۔ بنابریں فرمایا : ﴿تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ ” بڑا بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفت عظمت و جلال کا ذکر فرمایا جو عقل مندوں کی اس حقیقت کی طرف راہ نمائی کرتی ہے کہ تمام حوائج میں وہی اکیلا معبود مقصود ہے۔ تو اب اس چیز کا حکم دیا جو اس حقیقت پر مترتب ہوتی ہے۔