أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ۚ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ
کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسم کھاتے تھے کہ اللہ کی رحمت ان پر نہیں ہوگی، (پھر اللہ ان سے کہے گا) کہ تم لوگ جنت میں داخل ہوجاؤ، نہ تمہیں مستقبل کا خوف لاحق ہوگا اور نہ ماضی کا غم
﴿أَهَـٰؤُلَاءِ﴾” اب یہ وہی ہیں“ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کیا ﴿الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّـهُ بِرَحْمَةٍ﴾ ” جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ اللہ اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا۔“ یعنی تم لوگ اہل ایمان کے ساتھ نفرت اور حقارت کا اظہار کرتے ہوئے نہایت خودپسندی کے ساتھ قسمیں اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت سے نہیں نوازے گا۔ اب تم اپنی قسموں میں جھوٹے ہوگئے ہو۔ اس چیز کی حقیقت تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردی ہے جسے تم کسی شمار میں نہیں لایا کرتے تھے۔ ﴿ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ﴾” تم جنت میں داخل ہوجاؤ۔“ یعنی اپنے اعمال کے صلہ میں جنت میں داخل ہوجاؤ یعنی کمزور اور ناتواں لوگوں کو اکرام و احترام کے ساتھ کہا جائے گا کہ اپنے نیک اعمال کی جزا کے طور پر جنت میں داخل ہوجاؤ﴿لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ ﴾مستقبل میں تمہیں کسی تکلیف کا خوف نہ ہوگا ﴿وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ﴾اور جو کچھ گزر گیا ہے تم اس پر غمزدہ نہیں ہو گے۔ بلکہ تم محفوظ و مامون، مطمئن اور ہر بھلائی پر فرحاں و شاداں ہو گے۔۔۔ اس کی نظیر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے !﴿إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ﴾(المطففين: 83؍ 29۔35)” وہ مجرم جو دنیا میں اہل ایمان پر ہنسا کرتے تھے جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کیا کرتے تھے اپنے گھر واپس لوٹتے تو اکڑفوں کے ساتھ اتراتے ہوئے لوٹتے اور جب اہل ایمان کو دیکھتے تو کہتے یہ تو گمراہ ہیں۔ حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ آج اہل ایمان کافروں پر ہنسیں گے اور اپنے تختوں پر بیٹھے کافروں کا حال دیکھ رہے ہوں گے۔ “ اہل علم اور مفسرین میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اصحاب اعراف سے کیا مراد ہے اور ان کے اعمال کیا ہیں۔ اس بارے میں صحیح مسلک یہ ہے کہ اصحاب اعراف وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ نہ تو ان کی برائیاں زیادہ ہوں گی جس کی بنا پر وہ جہنم میں داخل ہوجائیں اور نہ ان کی نیکیاں زیادہ ہوں گی کہ جنت میں داخل ہوجائیں۔ پس جب تک اللہ چاہے گا یہ لوگ مقام اعراف میں قیام کریں گے پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے انہیں جنت میں داخل کرے گا کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرتی اور غالب آتی ہے اور اس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔