سورة الاعراف - آیت 42

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو لوگ ایمان (29) لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ہیں وہی لوگ جنتی ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے نافرمان ظالموں کو دیئے جانے والے عذاب کا ذکر فرمایا، تب اس نے اہل اطاعت بندوں کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اور جو لوگ ایمان لائے۔“ یعنی جو دل سے ایمان لائے ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾” اور عمل نیک کرتے رہے۔“ یعنی اپنے جوارح سے نیک عمل کرتے رہے۔ پس اس طرح وہ ایمان و عمل، اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو جمع کرتے ہیں اور بیک وقت فعل واجب اور ترک محرمات پر عمل کرتے ہیں۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ایک عام لفظ ہے جو واجب اور مستحب تمام نیکیوں کو شامل ہے، اور بسا اوقات بعض نیکیاں بندے کی مقدرت سے باہر ہوتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ” ہم ہر نفس کو اس کی طاقت کے مطابق مکلف کرتے ہیں“ اور اس کی مقدرت سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ لہٰذا اس حال میں اس پر فرض ہے کہ وہ استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرے اگر بعض فرائض و واجبات کی تعمیل سے عاجز ہو اور ان کو بجا لانے پر قادر نہ ہو تو یہ فرائض اس پر سے ساقط ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ:2؍286)” اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا“ یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص پر صرف وہی چیز فرض کرتا ہے جسے سر انجام دینے کی وہ طاقت رکھتا ہے۔ فرمایا : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَ ﴾(الطلاق :65؍7) ” اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر صرف اسی کے مطابق جو اس کو عطا کیا ہے“ فرمایا : ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ (الحج :22؍78) ” اور (اللہ تعالیٰ نے) تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن :64؍16) ” پس جہاں تک طاقت ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔“ پس معلوم ہوا کہ عاجز ہونے کی صورت میں واجب کی ادائیگی لازم نہیں اور نہ اضطراری صورتحال میں محرمات سے اجتناب واجب رہتا ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾” ایسے ہی لوگ“ یعنی ایمان اور عمل صالح سے متصف لوگ ﴿ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” اہل بہشت ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ یعنی انہیں جنت سے نکالا نہیں جائے گا اور نہ وہ خود جنت کے بدلے کوئی اور چیز چاہیں گے، کیونکہ انہیں جنت میں انواع و اقسام کی لذتیں حاصل ہوں گی، تمام خواہشات پوری ہوں گی، انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہوگی اور اس سے بلند تر کسی مقام کی طلب نہ ہوگی۔