فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
چنانچہ اس نے دونوں کو دھوکہ (13) دے کر اپنے جال میں پھانس لیا، پس جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں دکھائی دینے لگیں اور دونوں اپنے جسم پر جنت کے پتے چسپاں کرنے لگے، اور ان دونوں کے رب نے انہیں پکارا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے
1- ”تَدْلِية“ اور ”إِدْلاءٌ“ کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا۔ گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا۔ 2- یہ اس معصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم (عليہ السلام) وحوا سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیرمرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لئے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ (ابن کثیر ) 3- یعنی اس تنبیہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لئے بڑی کاوش ومحنت اور ہر وقت اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔