سورة البقرة - آیت 90

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بڑی ہی بری وہ چیز (١٤٣) تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، یعنی الہ کی نازل کردہ (کتاب) کا انکار کردیا، سرکشی اور حسد کی وجہ سے کہ اللہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (کیوں) اتارتا ہے۔ پس وہ (اللہ کے) غضب پر غضب کے مستحق بنے، اور کافروں کو بڑا رسوا کن عذاب ملے گا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-یعنی اس بات کی معرفت کے بعد بھی، کہ حضرت محمد رسول (ﷺ) ، وہی آخری پیغمبر ہیں، جن کے اوصاف تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور جن کی وجہ سے ہی اہل کتاب ان کے ایک (نجات دہندہ) کے طور پر منتظر بھی تھے، لیکن ان پر محض اس جلن اور حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے کہ نبی (ﷺ) ہماری نسل میں سے کیوں نہ ہوئے، جیسا کہ ہمارا گمان تھا، یعنی ان کا انکار دلائل پر نہیں، نسلی منافرت اور حسد وعناد پر مبنی تھا۔ 2- غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب۔ کیوں کہ بار بار وہ غضب والے کام کرتے رہے، جیسا کہ تفصیل گزری، اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (ﷺ) کا انکار کیا۔