سورة الانعام - آیت 145

قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجئے کہ جو کتاب مجھے بذریعہ وحی دی گئی ہے اس میں کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز حرام (145) نہیں پاتا ہوں، سوائے اس کے کہ کوئی مردار جانور ہو، یا بہنے والا خون، یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے، یا ایسا جانور جو غیر اللہ کے نام پر چھوڑا گیا ہو، ہاں، جو شخص بے حد مجبوری کی حالت میں کوئی حرام چیز استعمال کرلے گا، نہ نافرمان ہوگا اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا، تو بے شک آپ کا رب بڑا معاف کرنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۂ بقرہ 173 کے حاشیے میں گذر چکی ہے۔ یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمۂ حصر سے کیا گیا ہے، جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آرہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کررکھے تھے، اس سیاق اور ضمن میں یہ کہا جارہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے اس میں تو اس سے مقصود مشرکین کے حرام کردہ جانوروں کی حلت ہے یعنی وہ حرام نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ حرام ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی ذکر ضرور کرتا۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینًا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض اور محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی (ﷺ) نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نبی (ﷺ) نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لئے دو اصول بیان فرما دیئے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ ”او فِسْقًا“ کا عطف ”لَحْمَ خِنْزِير“ پر ہے۔ اس لئے منصوب ہے، معنی ہیں أَيْ: ذُبِحَ عَلَى الأَصْنَامِ، (وہ جانور جو بتوں کے نام پر ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کئے جائیں) یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جائے، تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں، غیراللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور صرف اسی کے تقرب ونیاز کے لئے کیا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔