سورة الانعام - آیت 104

قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس (دلوں کو روشن کرنے والے) دلائل (100) آچکے ہیں، تو جو کوئی ان سے بصیرت حاصل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا، اور جو اندھا ہوجائے گا تو اس کا نقصان اسی کو ہوگا، اور میں تمہارے اوپر نگہبان نہیں مقرر کیا گیا ہوں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بَصَائِرُ بَصِيرَةٌ کی جمع ہے۔ جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے۔ یہاں مراد وہ دلائل وبراہین ہیں جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (ﷺ) نے بھی ان احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنالے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا، تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا ﴿مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا﴾ ( بنی اسرائیل: 15) اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیروضاحت آیت کا ہے۔ 2- بلکہ صرف مبلغ، داعی اور بشیر ونذیر ہوں۔ راہ دکھلانا میرا کام ہے، راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔