ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت (١٢١) ہوگئے، پس وہ پتھر کے مانند ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت، اور بعض پتھر ایسے بھی ہیں جن سے نہریں جاری ہوتی ہیں، اور بعض ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں، پھر ان میں سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے گرجاتے ہیں، اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں ہے
1-یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا، دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر ”إِنَابَةٌ إِلَى اللهِ“ کا داعیہ اور توبہ واستغفار کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ دلوں کا سخت ہوجانا یہ افراد اور امتوں کے لئے سخت تباہ کن، اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبول حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے، اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے: ﴿وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ (الحدید: 16) ”اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی، لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔“ 2- پتھروں کی سنگینی کے باوجود، ان سے جو جو فوائد حاصل ہوتے اور جو جو کیفیت ان پر گزرتی ہے، اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک واحساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل: 44) (مزید وضاحت کے لئے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 44 کا حاشیہ دیکھیے)۔