فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
پھر اگر معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں (اپنی گواہی میں) گناہ گار بنے ہیں، تو (میّت) کے دو قریب ترین رشتہ دار، ان لوگوں میں سے جن کے حق میں گناہ ہوا ہے، گذشتہ دونوں آدمیوں کی جگہ پر کھڑے ہوں گے، اور اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے حق کے زیادہ قریب ہے، اور ہم نے کسی پر زیادتی نہیں کی ہے ورنہ ہم بے شک ظالموں میں سے ہوں گے
1- یعنی جھوٹی قسمیں کھائیں ہیں۔ 2- ”أَوْلَيَانِ“، أَوْلَى کا تثنیہ ہے، مراد ہے میت یعنی موصی (وصیت کرنے والے) کے قریب ترین دو رشتے دار ﴿مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ ...﴾ کا مطلب یہ ہے جن کے مقابلے پر گناہ کا ارتکاب ہوا تھا یعنی جھوٹی قسم کا ارتکاب کرکے ان کو ملنے والا مال ہڑپ کرلیا تھا۔”الأوْلَيَانِ“ یہ یا تو”هُمَا“ مبتدا محذوف کی خبر ہے یا”يَقُومَانِ“ یا ”آخَرَانِ“ کی ضمیر سے بدل ہے۔ یعنی یہ دو قریبی رشتے دار، ان کی جھوٹی قسموں کے مقابلے میں اپنی قسم دیں گے۔