يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ
اے ایمان والو, اگر تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب (131) آجائے، تو وصیت کرتے وقت آپس میں گواہی کے لیے مسلمانوں میں سے دو معتبر آدمی کو گواہ بنا لو، اور اگر تم حالت سفر میں ہو، اور موت کی مصیبت سے دوچار ہوجاؤ تو غیر مسلموں میں سے دو گواہ بنا لو، دونوں کو نماز کے بعد روک لوگے، پھر اگر تمہیں ان دونوں کی سچائی میں شبہ ہوگا، تو وہ (دونوں) اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم اس قسم کے ذریعہ کوئی فائدہ نہیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ (جس کے لیے گواہی دی جا رہی ہے) وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپاتے ہیں، ورنہ ہم بے شک گنہگاروں میں سے ہوجائیں گے
1- تم میں سے ہوں کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں اور بعض نے کہا ہے کہ موصی (وصیت کرنے والے) کے قبیلے سے ہوں۔ اسی طرح ﴿آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ﴾ میں دو مفہوم ہوں گے یعنی ﴿مِنْ غَيْرِكُمْ﴾سے مراد یا غیر مسلم (اہل کتاب) ہوں گے یا موصی کے قبیلے کے علاوہ کسی اور قبیلے سے۔ 2- یعنی سفر میں کوئی ایسا شدید بیمار ہوجائے کہ جس سے زندہ بچنے کی امید نہ ہو تو وہ سفر میں دو عادل گواہ بنا کر جو وصیت کرنا چاہے، کردے۔ 3- یعنی مرنے والےمُوصِي کے ورثا کو شک پڑ جائے کہ ان اوصیا نے مال میں خیانت یا تبدیلی کی ہے تو وہ نماز کے بعد یعنی لوگوں کی موجودگی میں ان سے قسم لیں اور وہ قسم کھا کے کہیں ہم اپنی قسم کے عوض دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یعنی جھوٹی قسم نہیں کھا رہے ہیں۔