يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے اہل ایمان ! اللہ تمہیں کچھ شکار کے جانوروں کے ذریعہ آزمائے گا (114) جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ پائیں گے، تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے بغیر دیکھے ڈرتا ہے، پس جو کوئی اس حکم کے بعد حد سے تجاوز کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے
1- شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا، اس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کرکے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ رضی اللہ عنھم کے قریب آتے، لیکن انہی ایام میں ان 4 آیات کا نزول ہوا جن میں اس سے متعلقہ احکام بیان فرمائے گئے۔ 2- قریب کا شکار یا چھوٹے جانور عام طور پر ہاتھ ہی سے پکڑ لئے جاتے ہیں اور دور کے یا بڑے جانوروں کے لئے تیر اور نیزے استعمال ہوتے تھے۔ اس لئے صرف ان دونوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جس طرح بھی اور جس چیز سے بھی شکار کیا جائے، احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔