لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
آپ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن (107) یہود اور اہل شرک کو پائیں گے، اور مسلمانوں کے سب سے قریبی دوست ان لوگوں کو پائیں گے جنہوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں، یہ اس لیے کہ ان میں کچھ علماء تارک دنیا عبادت گذار ہوتے ہیں، اور وہ کبر و غرور نہیں کرتے ہیں
1- اس لئے کہ یہودیوں کے اندر عناد وجحود، حق سے اعراض واستکبار اور اہل علم وایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ (ﷺ) پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملے میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ 2- ”رُهْبَانٌ“ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ اور ”قِسِّيسِينَ“ سے مراد علماء وخطباء ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم وتواضع ہے، اس لئے ان میں یہودیوں کی طرح جحود واستکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیحی میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی اس کو پیش کر دو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمانوں کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا یہ وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے۔ تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم وبیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب وہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لئے قرآن نے دونوں سے ہی دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔