فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
پھر اس کے نفس نے اس کی نظر میں اپنے بھائی کا قتل (43) آسان بنا دیا، چنانچہ اس نے اسے قتل کردیا، اور بڑے ہی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا
1- چنانچہ حدیث میں آتا ہے [ لا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إلا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا؛ لأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ] (صحيح بخاری، كتاب الأنبياء ومسلم، كتاب القسامة) ”جو قتل بھی ظلماً ہوتا ہے، (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا۔“ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ”ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی“۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا [ مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدِّخِرُ لِصَاحِبِهِ فِي الآخِرَةِ؛ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ] (أبو داود، كتاب الأدب- ابن ماجہ، كتاب الزهد ومسند أحمد 5/ 36-38) ”بغی (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مرتکبین کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے ذخیرہ ہوگی“ جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی اور قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (ابن کثیر)