سورة الفاتحة - آیت 7

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان لوگوں کی راہ پر جن پر تو نے انعام کیے، ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور نہ ان کی جو گمراہ ہوگئے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-یہ صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر وہ لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا، یہ منعم علیہ گروہ ہے انبیا شہدا صدیقین اور صالحین کا۔ جیسا کہ سورۂ نساء میں ہے: ﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ (النساء: 69) ”اور جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں، وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا، اور صالحین، اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔“ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسول (ﷺ) ہی کا راستہ ہے، نہ کہ کوئی اور راستہ۔ 2- بعض روایات سے ثابت ہے کہ ﴿مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ﴾ ”جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا“ سے مراد یہودی اور ﴿ضَالِّيْنَ﴾ ”گمراہوں“ سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ ”لا أَعْلَمُ خِلافًا بَيْنَ الْمُفَسِّرِينَ فِي تَفْسِيرِ ﴿الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ﴾ : بِالْيَهُود وَ ﴿الضَّالِّينَ﴾ بالنَّصَارَى“ (فتح القدیر)، اس لئے صراط مستقیم پر چلنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہود اور نصاریٰ دونوں کی گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے، آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، حضرت عزیر (عليہ السلام) کو ”ابن اللہ“ کہتے، اپنے احبار ورھبان کو حرام وحلال کرنے کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) کی شان میں غلو کیا اور انہیں ”ابْنُ اللهِ“ اور ”ثَالِثُ ثَلاثَةٍ“ (اللہ کا بیٹا اور تین خدا میں سے ایک) قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے، تاکہ ادبار ونکبت کے بڑھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکیں۔ سورۂ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنے کی نبی (ﷺ) نے بڑی تاکید اور فضیلت فرمائی ہے۔ اس لئے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہیے۔ نبی (ﷺ) جہری نمازوں میں اونچی آواز سے آمین کہا کرتے تھے اور صحابہ (رضی الله عنہم) بھی، حتیٰ کہ مسجد گونج اٹھتی۔ (ابن ماجہ۔ ابن کثیر)، بنابریں آمین اونچی آواز سے کہنا سنت اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کا معمول بہ ہے۔ آمین کے معنی مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ ”كَذَلِكَ فَلْيَكُنْ“ (اسی طرح ہو)، ”لا تُخَيِّبْ رَجَاءَنا“ (ہمیں نامراد نہ کرنا)، ”اللَّهُمَّ! اسْتَجِبْ لَنَا“ (اے اللہ ہماری دعا قبول فرمالے)۔