يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو ! تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت (31) کو یاد کرو، جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی، تو ان کے ہاتھ تم سے روک دئیے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور مومنوں کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسہ کریں
1- اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلاً اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (ﷺ) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد! (ﷺ) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ (ﷺ) نے بلا تامل فرمایا ”اللہ“ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ (ﷺ) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کوبچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنونضیر سے حسب معاہدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (ﷺ) اپنے رفقا سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (ﷺ) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ایسرالتفاسیر و فتح القدیر)