يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے کھڑے (24) ہو، تو اپنے چہروں کو، اور اپنے ہات ٥ ھوں کو کہنیوں تک دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرلو، اور اپنے پاؤں (25) دونوں ٹخنوں تک دھو لو، اور اگر تم ناپاک (26) ہو تو پاکی حاصل کرو، اور اگر تم بیمار (27) ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آئے، یا تم نے بیویوں سے مباشرت کی ہو، اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، پس اپنے چہروں اور اپنے دونوں ہاتھوں پر اس سے مسح کرلو، اللہ تعالیٰ تمہیں کسی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا ہے، بلکہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے، اور تمہارے اوپر اپنی نعمت کو تمام کرنا چاہتا ہے، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو
1- منہ دھوؤ یعنی ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔ 2- مسح پورے سر کا کیا جائے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔ اگر سر پر پگڑی یا عمامہ ہو تو حدیث کی رو سے موزوں کی طرح اس پر بھی مسح جائز ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) علاوہ ازیں ایک مرتبہ ہی اس طرح مسح کرلینا کافی ہے۔ 3- ”أَرْجُلَكُمْ“ کا عطف ”وُجُوهَكُمْ“ پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! اور اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوئی ہیں (بشرطیکہ وضو کی حالت میں پہنی ہوں) تو حدیث کی رو سے پیر دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح بھی جائز ہے۔ ملحوظة: (1) اگر پہلے سے باوضو ہو تو نیا وضو کرنا ضروری نہیں۔ تاہم ہر نماز کے لئے تازہ وضو بہتر ہے۔ (2) وضو سے پہلے نیت فرض ہے۔ (3) وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنی بھی ضروری ہے۔ (4) داڑھی گھنی ہو تو اس کا خلال کیا جائے۔ (5) اعضا کو ترتیب وار دھویا جائے۔ (6) ”ان کے درمیان فاصلہ نہ کیا جائے“ یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں دیر نہ کی جائے۔ بلکہ سب اعضا تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے دھوئے جائیں۔ (7) اعضائے وضو میں سے کسی بھی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ (8) کوئی عضو بھی تین مرتبہ سے زیادہ نہ دھویا جائے۔ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، فتح القدیر وایسر التفاسیر ) 4- جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض یا نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح القدیر وایسر التفاسیر ) 5- اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 43میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں رکنا یا رکے رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رضی الله عنہ) نے آیت سن کر کہا ”اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں اور یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو۔) (صحیح بخاری۔ سورۃ المائدۃ) 6- اسی لئے تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ 7- اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے یہ دعا یاد کرلی جائے۔