يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اے ایمان والو ! (اللہ کی مقرر کردہ) نشانیوں (4) کو حلال نہ بناؤ، اور نہ حرمت والے مہینے کو، اور نہ قربانی کے اس جانور کو جسے کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، اور نہ ان جانوروں کو جن کی گردن میں پٹے ڈال کر کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، (اور نہ حلال بناؤ) بیت حرام کی طرف آنے والوں کو جن کا مقصد اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، اور جب تم احرام کھول دو (5) تو شکار کرو، اور کسی قوم کی تم سے دشمنی (6) کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روک دیا تھا، اس پر نہ ابھارے کہ ان پر زیادتی کرو، اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون (7) کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے
1- ”شَعَائِرَ“، ”شَعِيرَةٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسےعام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج وعمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ بھی مت بنو، کہ یہ بھی بےحرمتی ہی ہے۔ 2- ﴿الشَّهْرُ الْحَرَامُ﴾ مراد اس سے جنس ہے یعنی حرمت والے چاروں مہینوں (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو۔ بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ﴾ سے منسوخ مانا ہے۔ مگر اس کی ضرورت نہیں۔ دونوں احکام کے اپنے اپنے دائرے ہیں، جن میں تعارض نہیں۔ 3- ”هَدْيٌ“ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے۔ ”قَلائِدُ“ ”قلادَةٌ“ کی جمع ہے جو گلے کے پٹے کو کہا جاتا ہے، یہاں حج یا عمرہ کے موقع پر قربان کئے جانے والے ان جانوروں کو مراد لیا گیا ہے۔ جن کے گلوں میں علامت اور نشانی کے طور پر جوتے یا پٹے ڈال دیئے جاتے تھے پس قلائد سے مقصود وہی جانور ہوئے جنہیں حرم لے جایا جاتا تھا۔ یہ ھدی کی مزید تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کو کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ 4- یعنی حج وعمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو نہ انہیں تنگ کرو۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکٹھے حج و عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب آیت ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا﴾ (التوبہ: 28) ”مشرکین تو پلید ہیں، پس اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں“ نازل ہوگئی، تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ (فتح القدیر ) 5- یہاں امر اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔ 6- یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے 6 ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے اس روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جارہا ہے۔ 7- یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے۔ جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنا سکیں۔