وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور تم ہزار چاہنے کے باوجود عورتوں کے درمیان عدل و انصاف (125) نہیں کرسکتے، پس تم (کسی ایک کی طرف) بالکل مائل نہ ہوجاؤ، کہ دوسری کو لٹکائی ہوئی کی طرح نہ بنا دو، اور اگر تم اپنی اصلاح کرلو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تو بے شک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے
1- یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کر سکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں ہے۔ خود نبی (ﷺ) کو بھی اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ (رضی الله عنها) سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے۔ اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عنداللہ قابل مواخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی (ﷺ) نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بنا کر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی (ﷺ) نے بھی فرمایا ہےجس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا، (ترمذی، كتاب النكاح)