وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
اور میں یقیناً انہیں گمراہ کروں گا، اور یقیناً انہیں تمناؤں کے ذریعہ بہکاؤں گا (117) اور انہیں حکم دوں گا پس وہ جانوروں کے کان چیریں گے، اور میں انہیں حکم دوں گا پس وہ اللہ کی تخلیق کو بدلیں گے، اور جو شخص اللہ کے سوا شیطان کو اپنا دوست بنائے گا اس کا انجام صریح گھاٹا ہوگا
1- یہ وہ باطل امیدیں ہیں جو شیطان کے وسوسوں اور دخل اندازی سے پیدا ہوتی اور انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ 2- یہ بحیرہ اور سائبہ جانوروں کی علامتیں اور صورتیں ہیں۔ مشرکین ان کو بتوں کے نام وقف کرتے تو شناخت کے لئے ان کا کان وغیرہ چیر دیا کرتے تھے۔ 3-”تَغْيِيرُ خَلْقِ اللهِ“ (اللہ کی تخلیق کو بدلنا) کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہی جس کا ابھی یہاں ذکر ہوا یعنی کان وغیرہ کاٹنا، چیرنا، سوراخ کرنا، ان کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، پتھر اور آگ وغیرہ اشیا مختلف مقاصد کے لئے بنائی ہیں، لیکن مشرکین نے ان کے مقصد تخلیق کو بدل کر ان کو معبود بنا لیا۔ یا تغییر کا مطلب تغییر فطرت ہے، یا حلت وحرمت میں تبدیلی ہے وغیرہ۔ اسی تغییر میں مردوں کی نس بندی کرکے اور اسی طرح عورتوں کے آپریشن کرکے انہیں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دینا۔ میک اپ کے نام پر ابروؤں کے بال وغیرہ اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا اور وشم (یعنی گود نے گدوانا) وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ سب شیطانی کام ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ جانوروں کو اس لئے خصی کرنا کہ ان سے زیادہ انتفاع ہو سکے یا ان کا گوشت زیادہ بہتر ہو سکے یا اسی قسم کا کوئی اور صحیح مقصد ہو، تو جائز ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے خصی جانور قربانی میں ذبح فرمائے ہیں۔ اگر جانور کو خصی کرنے کا جواز نہ ہوتا تو آپ (ﷺ) ان کی قربانی نہ کرتے۔