وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
اور اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، اور وہ لوگ صرف اپنے آپ کو گمراہ کرتے ہیں، اور آپ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا پائیں گے، اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت اتاری ہے، اور جو آپ نہیں جانتے تھے وہ آپ کو سکھایا ہے، اور آپ پر اللہ کا فضل بڑا تھا
1- یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت ونگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء (عليهم السلام) کے لئے فرمایا ہے جو انبیا پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے۔ طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول (ﷺ) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (ﷺ) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کر دیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ 2- یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (ﷺ) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا علم دے کر فرمایا گیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوریٰ: 52) ”اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھاکہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“۔ ﴿وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ﴾ ( القصص:86) ”اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مگر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی)“ ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (ﷺ) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی، ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ (ﷺ) کو علم دیا گیا جن سے آپ (ﷺ) بےخبر تھے۔ یہ بھی گویا آپ (ﷺ) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو، اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں، وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔