سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
تم کچھ لوگوں کو پاؤ گے (98) جو چاہتے ہیں کہ تمہاری طرف سے بھی امن میں رہیں، اور اپنی قوم کی طرف سے بھی جب بھی انہیں فتنہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے، اس میں اوندھے منہ پڑجاتے ہیں، پس اگر وہ لوگ تم سے دور نہ رہیں، اور تمہیں پیغامِ صلح نہ دیں، اور اپنے ہاتھ نہ روکے رکھیں، تو انہیں پکڑ لو، اور انہیں جہاں پاؤ قتل کرو، اور ایسے ہی لوگوں کے خلاف ہم نے تمہارے لیے کھلی حجت قائم کردی ہے
1- یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا۔ یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم کے پاس جاتے تو شرک وبت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی ہم مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ 2- ”الفِتْنَة“ سے مراد شرک بھی ہو سکتا ہے۔ ”أُرْكِسُوا فِيهَا“ اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا ”الْفِتْنَة“ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ 3- ”يُلْقُوا“ اور ”يَكُفُّوا“ کا عطف ”يَعْتَزِلُوكُمْ“ پر ہے یعنی سب نفی کے معنی میں ہیں، سب میں ”لم“ لگے گا۔ 4- اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض وعناد ہے، تب ہی تو وہ بہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک یا تمہارے خلاف آمادۂ قتال ہونے) میں مبتلا ہو گئے۔