إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا
بے شک ہم نے تم سب کو ایک قریب کے عذاب سے ڈرا (١١) دیا ہے، جس دن ہر آدمی اپنے اعمال کو دیکھے گا، جو اس نے آگے بھیج دیا تھا، اور کافر کہے گا، کاش میں مٹی ہوجاتا
1- یعنی قیامت والے دن کے عذاب سے جو قریب ہی ہے۔ کیوں کہ اس کا آنا یقینی ہے اور ہر آنے والے چیز قریب ہی ہے، کیونکہ بہر صورت اسے آکر ہی رہنا ہے۔ 2- یعنی اچھا یا برا، جو عمل بھی اس نے دنیا میں کیا وہ اللہ کے ہاں پہنچ گیا ہے، قیامت والے دن وہ اس کے سامنے آجائے گا اور اس کا مشاہدہ کر لے گا ﴿وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا﴾ (الكهف ،49) ﴿يُنَبَّأُ الإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ﴾ ( القيامہ ،13) ۔ 3- یعنی جب وہ اپنے لئے ہولناک عذاب دیکھے گا تو یہ آرزو کرے گا۔ بعض کہتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ حیوانات کے درمیان بھی عدل وانصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا، حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ کے جانور پر کوئی زیادتی کی ہوگی، تو اس کا بھی بدلہ دلائے گا اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ جانوروں کو حکم دے گا کہ مٹی ہو جاو۔ چنانچہ وہ مٹی ہو جائیں گے۔ اس وقت کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی حیوان ہوتے اور آج مٹی بن جاتے۔ ( تفسیر ابن کثیر ) ۔