أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
کیا وہ قرآن (89) میں غور نہیں کرتے ہیں، اور اگر یہ غیر اللہ کے پاس سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے
1- قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور وتدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض وتناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصّل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز وبلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت وبلاغت قائم نہیں رہتی۔ دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علاّم الغیوب کے سوا کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ تیسرے ان حکایات وقصص میں نہ باہمی تعارض وتضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض وتضاد واقع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبرّا ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقیناً کلام الٰہی ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (ﷺ) پر نازل فرمایا ہے۔