فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
پس آپ کے رب کی قسم، وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل (74) نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں
1- اس آیت کی شان نزول میں ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جوبارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر (رضي الله عنه) سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رضي الله عنه) نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی ہے۔ صحیح واقعہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کا جو رسول اللہ (ﷺ) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی (ﷺ) تک پہنچا آپ (ﷺ) نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر (رضي الله عنه) کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (ﷺ) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (ﷺ) کا پھوپھی زاد ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحيح بخاري تفسير سورة النساء) آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (ﷺ) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت بھی منکرین حدیث کے لئے تو ہے ہی، دیگر افراد کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو قول امام کے مقابلے میں حدیثِ صحیح سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ یا تو کھلے لفظوں میں اسے ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یا اس کی دور ازکار تاویل کرکے یا ثقہ راویوں کو ضعیف باور کرا کے مسترد کرنے کی مذموم سعی کرتے ہیں۔