سورة المدثر - آیت 31

وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے جہنم کی نگرانی کے لئے فرشتے (٦) مقرر کئے ہیں، اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کے لئے فتنہ بنایا ہے، تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں (کہ یہ رسول برحق ہے) اور تاکہ ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے، اور اہل کتاب اور مومنین (قرآن کی صداقت میں) شبہ نہ کریں، اور تاکہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے اور کفار کہیں کہ اللہ نے یہ مثال دے کر کیا چاہا ہے۔ اللہ اسی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور آپ کے رب کے لشکر کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ باتیں محض لوگوں کی نصیحت کے لئے بیان کی گئی ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ مشرکین قریش کا رد ہے، جب جہنم کے داروغوں کا اللہ نے ذکر فرمایا تو ابو جہل نے جماعت قریش کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم میں سے ہر دس آدمیوں کا گروپ، ایک ایک فرشتے کے لئے کافی نہیں ہوگا، بعض کہتے ہیں کہ کلدہ نامی شخص کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا، کہا، تم سب صرف دو فرشتے سنبھال لینا، 17 فرشتوں کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ کہتے ہیں اس نے رسول اللہ (ﷺ) کو کشتی کا بھی کئی مرتبہ چلینج دیا اور ہر مرتبہ شکست کھائی مگر ایمان نہیں لایا، کہتے ہیں اس کے علاوہ رکانہ بن عبد یزید کے ساتھ بھی آپ (ﷺ) نے کشتی لڑی تھی لیکن وہ شکست کھا کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر) مطلب یہ کہ یہ تعداد بھی ان کے مذاق یا آزمائش کا سبب بن گئی۔ 2- یعنی جان لیں کہ رسول برحق ہے اور اس نے وہی بات کی ہے جو پچھلی کتابوں میں بھی درج ہے۔ 3- کہ اہل کتاب نے ان کے پیغمبر کی بات کی تصدیق کی ہے ۔ 4- بیمار دلوں سے مراد منافقین ہیں یا پھر وہ جن کے دلوں میں شکوک تھے کیونکہ مکہ میں منافقین نہیں تھے۔ یعنی یہ پوچھیں گے کہ اس تعداد کو یہاں ذکر کرنے میں اللہ کی کیا حکمت ہے؟ 5- یعنی گذشتہ گمراہی کی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ اور جسے چاہتا ہے، راہ یاب کر دیتا ہے، اس میں حکمت بالغہ ہوتی ہے اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ 6- یعنی کفار و مشرکین سمجھتے ہیں کہ جہنم میں 19 فرشتے ہی تو ہیں، جن پر قابو پانا کون سا مشکل کام ہے؟ لیکن ان کو معلوم نہیں کہ رب کے لشکر تو اتنے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہی نہیں۔ صرف فرشتے ہی اتنی تعداد میں ہیں کہ 70 ہزار فرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کے لئے بیت المعمور میں داخل ہوتے ہیں، پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔ (صحیح بخاری) 7- یعنی یہ جہنم اور اس پر مقرر فرشتے، انسانوں کی پند و نصیحت کے لئے ہیں کہ شاید وہ نافرمانیوں سے باز آجائیں۔