يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
وہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا، اور تمہیں ایک وقت مقرر تک مہلت دے گا، بے شک اللہ کا وقت مقرر جب آجائے گا تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا، کاش کہ تم یہ بات سمجھ جاتے
1- اس کے معنی یہ کیے گیے ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کرکے تمہیں مزید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کردے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ چنانچہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اطاعت، نیکی اور صلۂ رحمی سے عمر میں حقیقتاً اضافہ ہوتا ہے۔ حدیث میں بھی ہے: [ صِلَةُ الرَّحِمِ تَزِيدُ فِي الْعُمُرِ ]، (صلۂ رحمی، اضافہ عمر کا باعث ہے)۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں، تاخیر کا مطلب برکت ہے، ایمان سے عمر میں برکت ہوگی۔ ایمان نہیں لاؤگے تو اس برکت سے محروم رہوگے۔ 2- بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فورا اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔ 3- یعنی اگر تمہیں علم ہوتا تو تم اسے اپنانے میں جلدی کرتے جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں یا اگر تم یہ بات جانتے ہوتے کہ اللہ کا عذاب جب آجاتا ہے تو ٹلتا نہیں ہے۔