سورة النسآء - آیت 34

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

مرد عورتوں پر حاکم (42) ہیں، اس برتری کی بدولت جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر دے رکھی، ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس نیک عورتیں اللہ سے ڈرنے والی، شوہر کے پیٹھ پیچھے (اس کی عزت و مال کی) اللہ کی حفاظت کی بدولت حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں ڈر ہو، انہیں وعظ و نصیحت کرو، اور بستروں میں ان سے علیحدگی اختیار کرلو، اور انہیں مارو، پھر اگر تمہاری اطاعت کرنے لگیں، تو ان کے سلسلے میں کوئی اور کاروائی نہ کرو، بے شک اللہ بڑی بلندی اور کبریائی والا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں مرد کی حاکمیت وقوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک وہبی ہے جو مردانہ قوت ودماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے، جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت وحیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا ہے، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے،جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث میں ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہے ”وہ قوم ہر گز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے“۔ (صحيح البخاري- كتاب المغازي- باب كتاب النبي إلى كسرى وقيصر وكتاب الفتن باب 18) 2- نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ ونصیحت کا نمبر ہے، دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھ دار عورت کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی ہے۔ اگر وہ اصلاح کر لے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بالکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارۂ کار باقی نہ رہے، لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔