سورة النسآء - آیت 32

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر جو برتری دی ہے اس کی تمنا (40) نہ کرو، مردوں کو ان کی کمائی کا حصہ ملتا ہے، اور عورتوں کو ان کی کمائی کا حصہ ملتا ہے، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) نے عرض کیا کہ مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے۔ اس پر آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 322) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت وطاقت اپنی حکمت وارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے اللہ کا خاص عطیہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح، ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سےاس کے فضل کا سوال کرنا چاہئے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کار کا جو فرق ہے، وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب ومحنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہو سکتا ہے۔