وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور آپ جب انہیں دیکھتے (٣) ہیں تو ان کے جسم آپ کو بہت اچھے لگتے ہیں، اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ ان کی گفتگو غور سے سنتے ہیں، وہ عقل و فہم اور خیر کی توفیق سے ایسے بے بہرہ ہیں جیسے دیوار سے ٹیک لگائی گئی لکڑیاں، ہر چیخ پر انہیں یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ انہی کے خلاف ہے، وہی لوگ حقیقی دشمن ہیں، آپ ان سے بچتے رہئے، اللہ انہیں ہلاک کر دے، وہ کدھر بہکے جا رہے ہیں
1- یعنی ان کے حسن وجمال اور رونق وشادابی کی وجہ سے۔ 2- یعنی زبان کی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے۔ 3- یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم اور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہیں لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ یا یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے اور مطلب ہے کہ یہ رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس میں اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے دیوار کے ساتھ لگی ہوئی لکڑیاں ہیں جو کسی بات کو سمجھتی ہیں نہ جانتی ہیں۔ (فتح القدیر) 4- یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زور دار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی ہے۔ یا گھبرا اٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تو نہیں ہورہا ہے۔ جیسے چور اور خائن کا دل اندر سے دھک دھک کر رہا ہوتا ہے۔