قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجئے، اے قوم یہود ! اگر تمہارا خیال (٦) ہے کہ تمام لوگوں کے سوا، صرف تم ہی اللہ کے دوست ہو تو اپنی موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو
* جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں)۔ (المائدۃ: 18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ (جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا) (البقرۃ: 111) ** تاکہ تمہیں وہ اعزاز واکرام حاصل ہو جو تمہارے زعم کے مطابق تمہارے لیے ہونا چاہیے۔ *** اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے، وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کر لو۔ یعنی مسلمانوں اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔ (دیکھئے سورۂ بقرۃ آیت 94 کا حاشیہ)۔