سورة الممتحنة - آیت 12

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اے میرے نبی ! اگر آپ کے پاس مومن عورتیں، آپ سے اس بات پر بیعت (١١) کرنے کے لئے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گی، اور چوری نہیں کریں گی، اور زنا نہیں کریں گی، اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑا ہوا کوئی بہتان نہیں لائیں گی، اور کسی بھلائی کے کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ ان سے بیعت لے لیجئے، اور اللہ سے ان کے لئے مغفرت کی دعا کیجئے، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یہ بیعت اس وقت لیتے جب عورتیں ہجرت کرکے آ تیں، جیسا کہ صحیح بخاری تفسیر سورۂ ممتحنہ میں ہے۔ علاوہ ازیں فتح مکہ والے دن بھی آپ (ﷺ) نے قریش کی عورتوں سے بیعت لی۔ بیعت لیتے وقت آپ (ﷺ) صرف زبان سے عہد لیتے۔ کسی عورت کے ہاتھ کو آپ (ﷺ) نہیں چھوتے تھے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) فرماتی ہیں (اللہ کی قسم بیعت میں نبی (ﷺ) کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ بیعت کرتے وقت آپ (ﷺ) صرف یہ فرماتے ، کہ میں نے ان باتوں پر تجھ سے بیعت لے لی)۔ (صحيح البخاری، تفسير سورة الممتحنة) بیعت میں آپ (ﷺ) یہ عہد بھی عورتوں سے لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی، گریبان چاک نہیں کریں گی، سر کے بال نہیں نوچیں گی اور جاہلیت کی طرح بین نہیں کریں گی۔ (صحيح بخاری وصحيح مسلم وغيرهما) اس بیعت میں نماز، روزہ، حج اور زکٰوۃ وغیرہ کا ذکر نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ارکان دین اور شعائر اسلام ہونے کے اعتبار سے محتاج وضاحت نہیں۔ آپ (ﷺ) نے بطور خاص ان چیزوں کی بیعت لی جن کا عام ارتکاب عورتوں سے ہوتا تھا، تاکہ وہ ارکان دین کی پابندی کے ساتھ، ان چیزوں سے بھی اجتناب کریں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علما ودعاۃ اور واعظین حضرات اپنا زور خطابت ارکان دین کے بیان کرنے میں ہی صرف نہ کریں جو پہلے ہی واضح ہیں، بلکہ ان خرابیوں اور رسموں کی بھی پر زور انداز میں تردید کیا کریں جو معاشرے میں عام ہیں اور نماز روزے کے پابند حضرات بھی ان سے اجتناب نہیں کرتے۔