وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے جو شخص مومنہ آزاد عورتوں سے شادی کرنے کی استطاعت (36) نہ رکھتا ہو، تو وہ تمہاری مومنہ لونڈیوں میں سے کسی سے شادی کرلے، اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے (اے مومنو !) تم سب آپس میں ایک ہو، پس تم ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے شادی کرلو، اور ان کا مہر حسب دستور ان کو دو، بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں زانیہ نہ ہوں، اور پوشیدہ طور پر شناساؤں کو رکھنے والی نہ ہوں۔ پس جب وہ نکاح میں آجائیں پھر زنا کا ارتکاب کریں، تو انہیں آزاد عورتوں سے آدھی سزا دی جائے گی (لونڈیوں سے شادی کا) یہ حکم تم میں سے ان کے لیے ہے، جنہیں زنا کا خوف لاحق ہوجائے اور صبر سے کام لینا تمہارے لیے بہتر ہے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
1- اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے، لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کر سکتا۔ 2- یعنی لونڈیوں کو سو (100) کے بجائے (نصف یعنی) پچاس کوڑوں کی سزادی جائے گی۔ گویا ان کے لئے سزائے رجم نہیں ہے کیونکہ وہ نصف نہیں ہو سکتی اور غیر شادی شدہ لونڈی کی تعزیری سزا ہوگی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) 3- یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہو جائے۔