سورة آل عمران - آیت 183

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ نے ہم سے یہ عہد (122) لے رکھا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک کوئی قربانی نہ لائے جسے آگ جلا دے۔ آپ کہئے کہ مجھ سے پہلے تمہارے پاس انبیاء آئے جو بہت سی نشانیاں اور وہ نشانی بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کر رہے تھے، تو تم نے انہیں قتل کیوں کردیا اگر تم اپنی بات میں سچے تھے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی وصدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (ﷺ) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے بحکم الٰہی آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے کہ جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے؟“۔