سورة الحجرات - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق (٩) نہ اڑائے، ممکن ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور تم اپنے مسلمان بھائیوں پر طعنہ زنی نہ کرو، اور ایک دوسرے کو برے القاب نہ دو، ایمان لانے کے بعد مسلمان کو برا نام دینا بڑی بری شے ہے، اور جو ایسی بد زبانی و بد اخلاقی سے تائب نہیں ہوں گے، تو وہی لوگ ظالم ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ایک شخص، دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے، جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اس لئے اپنےکوبہتر اور دوسرےکو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ بنابریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے، اس لئے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انہیں بھی بطور خاص اس سے روک دیا گیا ہے۔ اور حدیث رسول (ﷺ) میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے [ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وغَمْطُ النَّاسِ ] (أبو داود، كتاب اللباس باب ما جاء في الكبر) اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔ 2- یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔ 3- یعنی اپنےطور پر استہزا اور تحقیر کے لئے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں۔ یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا، یہ تنابز بالا لقاب ہے، جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے 4- یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجویز کرکے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کےبعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کرکے خطاب کرنا، مثلاً اے کافر، اے زانی یا شرابی وغیرہ، یہ بہت برا کام ہے۔ الاسْمُ یہاں الذِّكْرُ کے معنی میں ہے یعنی( بِئْسَ الاسْمُ الَّذِي يُذْكَرُ بِالْفِسْقِ بَعْدَ دُخُولهِمْ فِي الإِيمَانِ) (فتح القدیر) البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنیٰ ہیں جو کسی کے لئےمشہور ہو جائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں، جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑ جائے، کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہو جائے۔ وغیرہ (القرطبی)۔