إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
بے شک مومنین آپس میں بھائی (٨) ہیں، پس تم لوگ اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے
1- یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے۔ یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی۔ اس لئے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرےکے دست وبازو، ہمدرد وغم گسار اور مونس وخیر خواہ بن کر رہیں۔ اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہو جائے تو اسے دور کرکے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ (مزید دیکھئے سورۂ توبہ، آیت 71 کا حاشیہ)۔ 2- اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ترجی (امید والی بات) مخاطب کے اعتبار سے ہے۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان وتقوی کے لئےیقینی ہے۔ اس آیت میں باغی گروہ سے قتال کا حکم ہے درآں حالیکہ حدیث میں مسلمان سے قتال کو کفر کہا گیا ہے۔ تو یہ کفر اس وقت ہوگا جب بلا وجہ مسلمان سے قتال کیا جائے۔ لیکن اس قتال کی بنیاد اگر بغاوت ہے تو یہ قتال نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے جو تاکید واستحباب پر دال ہے۔ اسی طرح باغی گروہ کو قرآن نے مومن ہی قرار دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف بغاوت سے، جو کبیرہ گناہ ہے، وہ گروہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ جیسا کہ خوارج اوربعض معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ مرتکب کبائر ایمان سے خارج ہو جاتا ہے۔ اب بعض نہایت اہم اخلاقی ہدایت مسلمانوں کو دی جارہی ہیں۔