يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق (٥) تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اس کی تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچادو، پھر اپنے کئے پر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے
1- یہ آیت اکثر مفسرین کےنزدیک حضرت ولید بن عقبہ (رضی الله عنہ) کےبارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہ (ﷺ) نے بنو المصطلق کےصدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن انہوں نے آکر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے جس پر آپ (ﷺ) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا، تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلط تھی اور ولید (رضی الله عنہ) تو وہاں گئے ہی نہیں۔ لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ اس لئے اسے ایک صحابئ رسول (ﷺ) پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے۔ تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے۔ ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہےکہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے، تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔